صفی لکھنوی
غزل اس نے چھیڑی مجھے آواز ساز دینا
ذرا عمر ِرفتہ کو آواز دینا
قفس کے اڑوںمَیں،ہوا اب جوسنکے
مدد اتنی اے بالِ پرواز دینا
نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں تم سبھی آواز دینا
کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آواز دینا
دلیلِ گراں بارئ سنگ
غم سے
صفیؔ ٹوٹ کر دل کا آواز دینا
0 تبصرے