نکتہ وروں نے ہم کو سجھایا ، خاص بنو اور عام رہو
محفل
محفل صحبت رکھو، دنیا میں گم نام رہو
---
شاعر‘
ادیب‘ نقاد اور براڈ کاسٹر” مختار صدّیقی “
کا یومِ وفات
18؍ستمبر 1972
(پیدائش:
یکم مارچ، 1917ء – وفات: 18 ستمبر، 1972ء)
منتخب
اشعار
جن
خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں
کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں
---
بستیاں
کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں
ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی
---
عبرت
آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد
ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی
---
میری
آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے
وہ جو
اک بات سنی میری زبانی تم نے
---
نور سحر
کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب
التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی
---
کبھی
فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم
حسرتِ قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے
---
رات کے
بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
جو
آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں
---
سحرِ
ازل کو جو دی گئی وہی آج تک ہے مسافری
اسے طے
کریں تو پتہ چلے کہاں کون کس کی طلب میں ہے
---
پھیرا
بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال
ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
---
کیا کیا
پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی
کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں
---
میں تو
ہر دھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے
لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے
---
ترے
جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی
کہ تھا
شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی
...
شان خدا
ہے آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا
ورنہ اس
اک بستی میں بھی کیا کیا اہل کمال ہوئے
——
ناکامی
کا ملا ل بھی ہم کو پیش رَوؤں کی سند سے ہے
ویسے ان
کی طرح سے ہم بھی ہار کا کھیل ہی کھیلے تھے
——
اپنے
حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے
جن
داموں یہ دنیا ملتی، اتنے ہمارے دام کہاں
——
تھی تو
سہی ، پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی
شرافت ، ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی
——
یارو اب
شائستہ صحبت ، کون رہا اس بستی میں
اب صحبت
دل گیر نہ ہو تو ہم پہ کوئی الزام نہیں
——
آٹھ پہر
آشفتہ خیالی کس کو بھلا خوش آتی ہے
جی مانے
تو ہم بھی کچھ دل جمعی کا سامان کریں
——
رات بہت
بے حال رہے ہیں، بھولی بسری یادوں نے
اک ایک
گھڑی بے خوابی کی کن جتنوں سے بہلائی ہے
——
نکتہ
وروں نے ہم کو سجھایا ، خاص بنو اور عام رہو
محفل
محفل صحبت رکھو، دنیا میں گم نام رہو
——
0 تبصرے